Pages

Friday, 8 September 2017


نکاحِ ام کلثوم


آج ایک بلاگ پڑھنے کو ملا جس کو ایک کتاب نکاحِ ام کلثوم سے لکھا گیا تھا۔بلاگ لکھنا والا تو اس کتاب لکھنے والے کا مقلد معلوم ہوتا ہے کیونکہ
 جناب نے اس کتاب کے دم پر ٹائٹل کچھ اس طرح لکھا تھا کہ:
ویسے اس بلاگ لکھنے والے بیچارے کو شاید خود پتہ نہیں ہوگا کہ اس کتاب لکھنے والے نے کتنی جہالتیں لکھی ماری ہیں اس کتاب میں جس کا تھوڑا سا فریب یہاں بیان کریں گے انشاء اللہ
ہم یہاں تاریخ کو نہیں بیان کریں گئے بلکہ ان روایات کی صحت اور راویوں کی ثوثیق پر بات کریں گئے۔ پہلے روایات درج کرتے ہیں

حميد بن زياد عن ابن سماعة عن محمد بن زياد عن عبد الله بن سنان ومعاوية ابن عمار عن أبي عبد الله ع قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها أتعتد في بيتها أو حيث شاءت ؟ قال: بل حيث شاءت إن عليا ع لما توفي عمر أتى أم كلثوم فانطلق بها إلى بيته

میں نے ابو عبدلله سے پوچھا کہ وہ عورت جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو وہ ادت شوہر کے گھر میں پوری کرے گی یا جہاں وہ چاہے کر لے؟ امام (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا جہاں وہ چاہے کر لے کیونکہ حضرت عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) کے انتقال کے بعد حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) ام کلثوم (رضی اللہ تعالی عنھما) کو اپنے گھر لے آے

وثقه المجلسي : مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول ج 21 ص: 197 (الحديث الأول) : موثق.

الكافي للكليني (329 هـ) الجزء 6 صفحة 115 باب المتوفى عنها زوجها المدخول بها أين تعتد
مجلسی نے اس روایت کو موثق کہا ہے 

اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں۔




محمد بن يحيى وغيره عن أحمد بن محمد بن عيسى عن الحسين بن سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان بن خالد قال: سألت أبا عبد الله ع عن امرأة توفى زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت ثم قال: إن عليا ع لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته .

صححه المجلسي : مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول ج 21 ص: 199 (الحديث الثاني) : صحيح

الخلاف للطوسي (460 هـ) الجزء 1 صفحة722

مجلسی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے

مزید ایک روایت ہماری طرف سے:

علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم وحماد عن زرارة عن أبي عبد الله (ع) في تزويج أم كلثوم فقال: إن ذلك فرج غصبناه

ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی۔ 

حسنه المجلسي : مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج 20، ص: 42 (الحديث الأول) : حسن
الكافي الكليني (329 هـ) الجزء5 صفحة 346 باب تزويج أم كلثوم

مجلسی نے اس روایت کو حسن کہا ہے


اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے۔ اس کے راوی علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں۔ 



اب آتے ہیں بلاگرز صاحب کے خود ساختہ اصولوں کی طرف۔۔۔۔اس بلاگ کے خاص پوائنٹ ہم پیش کرتے ہیں اس کے بعد دلائل پیش کیے جائیں گئے۔

حمید بن زیاد اور ابن سماعۃ ہیں ان دونوں کا تعلق واقفی مذہب سے ہے اور واقفی المذہب کے بارے میں کفر و زنادقہ کی مماثلت بیان کی گئی ہے جیسا کہ مامقانی میں امام علی رضا علیہ اسلام کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے۔

2۔ایک ہشام بن سالم ہے جو فاسد العقیدہ تھا اور اللہ کی صورت مانتا تھا۔ (رجال الکشی)

ایک روایت سلیمان بن خالد سے بھی مروی ہے جو زیدیہ فرقہ سے تھا۔ نجاشی اور شیخ طوسی نے اسے ثقہ تسلیم نہیں کیا ابن داؤد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مقیاس الدرایہ میں زیدی، واقفی اور ناصبی کو ایک ہی منزلت پر کہا گیا ہے۔

سب سے پہلے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آیا واقفی زیدی اور ناصبی مذہب والے راوی قابل حجت ہیں۔
تو عرض کہ السید الخوئی احمد بن ہلال کے بارے میں شیخ صدوق کا قول نقل کرتا ہیں۔ 

ما رأينا ولا سمعنا بمتشيع رجع عن تشيعه إلى النصب، إلا أحمد بن هلال 

میں نے کسی کو شیعت سے ناصبیت کی طرف جاتا ہوا نا دیکھا نا سنا 

لیکن الخوئی کہتا ہے فاسد العقیدہ ہونا مضر نہیں یہ ثقہ ہے اور اس سے بہت سی روایات مروی ہیں 

فالمتحصل: أن الظاهر أن أحمد بن هلال ثقة، غاية الامر أنه كان فاسد العقيدة، وفساد العقيدة لا يضر بصحة رواياته، على ما نراه من حجية خبر الثقة مطلقا. وكيف كان، فطريق الصدوق إليه، أبوه، ومحمد بن الحسن - رضي الله عنهما -، عن سعد بن عبد الله، عن أحمد بن هلال، والطريق صحيح. طبقته في الحديث وقع بعنوان أحمد بن هلال في إسناد كثير من الروايات، تبلغ ستين موردا
(معجم الرجال 1/142)



اب فاسد العقیدہ ہونے والی جرح خود ہی مردود ہوگئی۔
اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ موصوف بلاگر کا یہ اپنا خود ساختہ اصول ہے نا کہ کسی محدث کا۔

اب آتے ہیں حمید بن زیاد کی توثیق کی طرف:

1۔حمید بن زیادہ:

محمد الجواھری نے اس کو ثقہ لکھا ہے۔

علی بن داود الحلی نے ثقہ لکھا ہے



2۔الحسن بن محمد بن سماعة:

نجاشی نے اس کو ثقہ کہا ہے

محمد الجواھری نے ثقہ کہا ہے



3۔ہشام بن سالم:

نقد الرجال میں ہے کہ یہ ثقہ ثقہ ہے یعنی دو مرتبہ ثقہ ہے
نجاشی سے بھی یہی منقول ہے۔






4۔سلیمان بن خالد:

ایوب بن نوح اور شیخ مفید نے شہادت دی ہے کہ یہ ثقہ ہے
شیخ مفید نے اس کو النص علی امامة میں نقل کرکے ثقہ کہا ہے




یہاں ایک مسئلہ جس کی وضاحت کرتا چلو کہ ابن داؤد نے اس کو ضعیف کہا ہے جس کا رد السید الخوئی نے کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ:

نمبر ایک۔۔۔سلیمان بن خالد کی ثقاھت میں اشکال نہیں ہے
 کیونکہ ایوب اور شیخ مفید نے اس کی ثقاھت کی شہادت کی ہے
اور اس کی تائید میں یہ بھی ہے کہ نجاشی نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ خالد فقیہ تھے
نجاشی کی  یہ بات سے اگر توثیق نہ ملے تو پھر بھی خالد کے حسن پر دلالت کرتا ہے
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ نجاشی اس سے یہ بات ثابت کرنا چاھتا ہے کہ خالد روایت کرنے میں مقبول ہے اور وہ اس پر اعتماد بھی کرتے تھے اور اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ ابن داود نے  بغیر وجہ اور دلیل کے خالد کو ضعفاء میں نقل کیا ہے



اور السید الخوئی نے تو اس کی ثوثیق پر بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے جس کا لنک یہ رہا۔


تمام راویوں کی توثیق  انکی اپنی کتابوں میں موجود ہے لیکن اس کو کہتے ہیں کہ مشکل میں گدھے کو اپنا باپ بنانا۔۔جب کچھ بس نہ چلا تو ایک جاہل ذاکر کی لکھی کتاب سے ہی ساری خود ساختہ جرح کرکے تمام روایوں کو مجروح کردیا۔اور جب اپنے مطلب کی باری آئی تو سب راوی ثقہ ہیں رافضیوں کے نزدیک۔
اسی کو منافقت کہتے ہیں۔۔۔۔یاللعجب



No comments:

Post a Comment