امام شافعی کے شاعرانہ کلام میں یہ شعر بھی ہمیں امام شافعی کی طرف منسوب ملتا ہے ۔
ان كان رفضا حب ال محمد
فليشهد الثقلان اني رافضي ۔
جہاں تک ان اشعار کی اصل اور اس کے مصدر کا سوال ہے، ان اشعار کا اولین مصدر امام بیہقی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو ربیع بن سلیمان سے نقل کیا ہے اور ربیع بن سلیمان تن تنہا اکلوتے راوی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو امام شافعی سے نقل کیا ہے۔
چنانچہ امام بیہقی نے ان اشعار کو امام شافعی سے بایں سند نقل کیا ہے۔
کتاب مناقب الشافعي للبيهقي میں اس کی سند ہے
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزّكِّي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث، حدثنا الربيع قال:
أنشدنا الشافعي رضي الله عنه:
يا راكباً قِف بالمُحَصَّبِ من مِنى … واهتف بقاعد خِيفها والناهِض
سَحَراً إذا فاض الحجيجُ إلى مِنى … فَيضاً كمُلْتَطم الفُرَاتِ الفائض
إن كان رَفْضاً حبُّ آلِ محمدٍ … فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي
اگر ال محمد سے محبت رفض ہے تو ثقلان گواہ ہیں میں رافضی ہوں
اس کی سند میں محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي ہے جس پر دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ
قال السهمى: سألت الدارقطني عنه، فقال: آية من آيات الله، وضع ذاك الكتاب – يعنى العلويات.
الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے جس نے اس کتاب کو گھڑا یعنی العلویات
یعنی اس نے علی کی منقبت میں روایات اور اشعار گھڑے
ابن عدی کہتے ہیں حمله شدة تشيعه اس پر شیعیت کا حملہ ہے
کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی کہتے ہیں
محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي: بمصر، شيعي جلد، اتهمه ابن عدي مصری کھلا شیعہ ہے
یعنی یہ اشعار امام الشافعی پر جھوٹ گھڑا کیا گیا ہے
کتاب طبقات الشافعيين از ابن کثیر کے مطابق سند ہے
وقال الحافظ أبو القاسم ابن عساكر: أخبرنا أبو الحسن الموازيني، قراءة عليه، عن أبي عبد الله القضاعي، قال: قرأت على أبي عبد الله محمد بن أحمد بن محمد، حدثنا الحسين بن علي بن محمد بن إسحاق الحلبي، حدثني جدي محمد وأحمد ابنا إسحاق بن محمد، قالا: سمعنا جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،
اس سند میں جعفر بن محمد مجھول ہے
کتاب تاریخ الدمشق میں إسماعيل بن علي بن الحسين ابن بندار بن المثنى أبو سعد الاستراباذي الواعظ کے ترجمہ میں ابن عساکر لکھتے ہیں
قال الخطيب: ولم يكن موثوقاً في الرواية.
وأنشد، بسنده عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي: من الكامل؟ يا راكباً قف بالمحصب من منى واهتف بقاطن خيفها والناهض
سحراً إذا فاض الحجيج إلى منى … فيضاً كملتطم الفرات الفائض
إن كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي قال حمد الرهاوي: لما ظهر لأصحابنا كذب إسماعيل بن المثنى أحضروا جميع ما كتبوا عنه وشققوه ورموا به بين يديه
خطیب بغدادی نے کہا یہ روایت میں موثق نہیں ہے اور شعر عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي کی سند سے بتائے … ان كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي
حمد الرهاوي نے کہا کہ جب إسماعيل بن المثنى الاستراباذي کا یہ کذب ظاہر ہوا ہم نے جو لکھا اس کو جمع کیا اور اپنے سامنے مٹایا
تاریخ الاسلام میں امام الذھبی نے اس کی سند دی ہے
قَالَ الحاكم: أخبرني الزُّبَيْر بن عبد الواحد الحافظ، قال: أخبرنا أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري، قال: حدثنا الربيع بْن سليمان قَالَ: حَجَجْنا مَعَ الشّافعيّ، فما ارتقى شُرُفًا، ولا هبط واديًا، إلّا وهو يبكي وينشد:
يا راكبًا قفْ بالمُحَصَّبِ من منى … واهتف بقاعد خيفنا والنّاهضِ
سَحَرًا إذا فاض الحَجيجُ إلى مِنَى … فَيْضًا كمُلْتَطَم الفُرات الفائضِ
إنّ كَانَ رفضًا حُبُّ آلِ محمّدٍ … فلْيَشْهَد الثَّقَلان أنّي رافضي
اس کی سند میں أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري لا معلوم ہے
اس کی اسناد میں کوئی بھی ثابت نہیں ہے
جبکہ امام الشافعی کا قول تو یہ ہے-
قَالَ البُوَيْطِيُّ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ: أُصَلِّي خَلْفَ الرَّافِضِيِّ؟ قَالَ: لاَ تُصَلِّ خَلْفَ الرَّافِضِيِّ
کیا رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لیں کہا نہیں پڑھو
الكتاب: الإمام الشافعي وموقفه من الرافضة
No comments:
Post a Comment