Pages

Wednesday, 6 September 2017

ابراہیم بن عبدالرحمن السکسکی:


قال احمد:ضعیف


مزکورہ بالا تمہید پر غور کرنے سے یہ جرح

ہرگز قابل التفات ثابت نہیں ہوتی،بلکہ یہ جرح خود مجروح ہے،کیونکہ اس جرح کا سبب نہ مبین ہے اور نہ مفسر۔

صحیح بخاری میں انکی حدیث بطور شاہد ہے،جو اسی کے ہم معنی اسی بخاری میں ابن مسعود سے دوسرے مقام میں مروی ہے۔
"میں نے کہا: اس کی صحیح میں دو حدیثیں ہیں، ایک عبداللہ بن ابی اوفی سے ہے جو اللہ تعالٰی کے قول (إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا) کے نزول کے بارے میں ہے، اس کو تفسیر میں تخریج کیا وغیرہ، اور یہ اصل ہے اور حدیث ابن مسعود کے لئے شاھد ہے، اور دوسرا عن ابی بردة عن ابیه والی حدیث: اگر بندہ بیمار ہو جائے یا سفر پہ جائے تو اللہ تعالٰی اس کے لئے صالح لکھ دیتے ہیں جب تک وہ حدیث پہ عمل کرتا ہے
(ھدی الساری ص:388)


لہذا اگر وہ مجروع بھی ہوں،تب بھی کوئی حرج نہیں،علاوہ بریں ابراہیم بن عبدالرحمن بن اسماعیل سکسکی صدوق اور قابل حجت ہے،ملاحظہ ہو:تقریب،نیز خود علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے:
("صدوق لم یترک،خرج لہ البخاری،وقال ابن عدی:لم أجد لہ حدیثا منکر المتن" انتھی ملخصاً۔۔۔۔۔(میزان الاعتدال1/166
"یعنی ابراہیم بن عبدالرحمن سکسکی صدوق اور غیر متروک ہے،امام بخاری نے اس سے تخریج کی ہے۔اور ابن عدی نے کہا کہ میں نے انکی کوئی حدیث منکر المتن نہیں پائی"
ایسا ہی امام صفی الدین نے لکھا ہے(خلاصہ:تزھیب تھذیب الکمال للخزرجی ص:19)
حافظ ابن حجر نے ھدی الساری میں لکھا ہے کہ:
قال:النسائی:یکتب حدیثه،،وقال ابن عدی:لم أحد لہ حدیثا منکر المتن،وھو الی الصدوق أقرب"انتھی(ھدی الساری:388)اور تہذیب التھذیب جلد اول میں لکھتے ہیں:
"ذکرہ ابن حبان فی الثقات،وقال ابن عدی:ابن عدی:لم أحد لہ حدیثا منکر المتن،وھو الی الصدوق أقرب منه الی غیرہ،ویکتب حدیثه کما قال النسائي"انتھی
دونوں عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن عدی نے کہا:میں نے انکی کسی حدیث کو منکر المتن نہیں پایا اور صدوق کی طرف اقرب ہیں،نسائی نے کہا کہ انکی حدیث قابل کتابت ہے،نیز ابن حبان نے انکو ثقات میں ذکر کیا ہے،معلوم ہوا کہ یہ راوی ثقات سے ہے۔


No comments:

Post a Comment