Pages

Friday, 8 September 2017

روافض کے ایک اعتراض کا جواب کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کے ١٢ ہزار درہم غصب کیے۔



حضرت ابو ہریرہؓ پر الزام کا جواب




یہ واقعہ صرف اتنا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین سے طلب کر کے پوچھا کہ یہ مال آپ نے کہاں سے حاصل کیا؟حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس کچھ گھوڑیا تھیں ان کی نسل میں افزائش ہوئی اس کے ساتھ ساتھ کچھ تنخواہیں جمع ہوگئیں، باقی ماندہ مال میرے غلام کی کمائی کا ہے۔ تحقیق کرنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے درست پایا پھر آپ نے دوبارہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحال کرنا چاہا مگر وہ نہ مانے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''ملازمت تو اس سے بہتر شخص (حضرت یوسف) نے بھی طلب کی تھی ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے وہ تو حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو خود نبی بھی تھے اور نبی زادہ بھی تھےاور میں امیمہ کا بیٹا ابو ہریرہ ہوں ۔'' اس واقعہ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دیگر عمال کی طرح حضرت عمر نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا محاسبہ کیا تھا اور تحقیق کرنے پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو الزام تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو دوبارہ بحال کرنا چاہا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سیرت بے داغ تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور آپ کو امین خیال کر تے تھے، اگر امین خیال نہ کرتے تو کیا دوبارہ ان کو بحال کرنے کی کوشش کرتے؟؟





دوسرا امام حاکم نے اپنی اسی کتاب ''المستدرک'' میں حضرت ابو ہریرہ کی مدح وتوصیف میں ایک نہایت قیمتی فصل منعقد کر کے بکثرت احادیث نقل کی ہیں جن سے ان کی عظمت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے،امام حاکم نے اس فصل کو اپنے استاد محترم ابو بکر کے مندرجہ ذیل نظریات پر ختم کیا ہے چنانچہ ابو بکر فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کرنے کے لئے وہ شخص گفتگو کرتا ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا ہو اور وہ احادیث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہویا تو وہ شخص فرقہ جہمیہ معطلہ میں سے ہوگاجو اپنے نظریے کے خلاف ابو ہریرہ کی مرویات سن کر ان کو گالیاں دیگا اور ادنٰی درجے کے لوگوں کو یہ تاثر دینےکی کوشش کریگا کہ یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہیں۔ یا وہ شخص خارجی ہوگا جس کے نزدیک ساری امت محمدی واجب القتل ہے اور کسی خلیفہ اور امام کی اطاعت ضروری نہیں ایسا شخص جب اپنے گمرہانہ عقائد کے خلاف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنی کی روایت کردہ احادیث کو دیکھے گا اور کسی دلیل اور برہان سے ان کا جواب نہ دے سکے گا تو فی الفور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے گا۔ یا وہ شخص قدریہ (منکرین تقدیر) میں سے ہوگا جن کا اسلام اور اہل اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور جو تقدیر کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ایسا شخص جب اثبات تقدیر کے مسئلہ سے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث دیکھے گا تو اپنی بر کفر عقیدے کی تائید و حمایت میں اسے کوئی دلیل نہ ملے گی تو وہ کہے گا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات استناد واحتجاج کے قابل نہیں۔ یا وہ شخص جاہل ہوگا جو جہالت کے باوجود فقہ دانی کا مدعی ہے اس شخص نے جس امام کی تقلید کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے جب اس کے خلاف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات دیکھے گا تو ان کی تردید کرنے لگے گا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مطعون ٹھہرائے گا۔لیکن جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث اس کے امام کے مسلک سے ہم آہنگ ہونگی تو اس وقت وہ ان کو اپنے مخالفین کی تردید میں استعمال کرے گا۔





No comments:

Post a Comment