ایمان ابو طالب پر ایک رافضی کی بخاری کی حدیث پر زبان درازی اور اس کا جواب
اس تحریر کے تمام حوالہ جات موجودہ لنک پر موجود ہے۔
افلاطون رافضی کا اعتراض تفسیر اور اصولِ تفسیر سے سراسر جھالت پر مبنی ھے اس کی اصل وجہ شیعوں کے پاس علومِ تفسیر نا ھونا ھے تفسیر کے معاملے میں شیعہ ھمیشہ اھلسنت کے محتاج رھے ھیں اس لئے طوسی کی تفسیر سے طبرسی کے مجمع البیان تک آپ کو کثرت سے ان تفاسیر میں اھلسنت مفسرین کےآراء و روایات ملیں گی لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا ھو گا کہ امام قرطبی, سے لیکر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کسی شیعہ تفسیر کی مدد لی ھو اس بات کا اعتراف تفسیر صافی کے مصنف نے بھی کیا مقدمے میں..تو میں دراصل یہ کہنا چاہ رھا تھا کہ شیعہ اصولِ تفسیر اور علومِ نزول قرآن سے جاھل ھونے کے ساتھ ساتھ اھلسنت کے محتاج بھی ھے ان کے حالیہ تفاسیر تفسیرِ نمونہ جیسے تفاسیر بھی کتبِ اھلسنت کے حوالوں سے مزین ھیں والحمد للہ
افلاطون کا اصل اعتراض اس روایت پر یہ ھے کہ چونکہ سورۃ برات بخاری اور مفسرین کے مطابق آخری نازل ھونے والی سورۃ ھے تو اس کی آیت نمبر 113 مکے میں کیسے نازل ھوئی؟؟؟
سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاھونگا کہ اھلسنت کے متقدمین اور متاخرین مفسرین اس بات پر متفق ھے کہ یہ آیت جنابِ ابوطالب کے بارے میں نازل ھوئی
دوسری بات افلاطون کی جاھلیت ملاحظہ ھوں اسے اتنا نہیں پتا کہ کوئی ایک ہی آیت دو بار بھی نازل ھو سکتی ھے اب یہی والی آیت لے لیں جس پر اس رافضی نے اعتراض کیا ھے یہ آیت ایک بار جنابِ ابوطالب کے بارے میں نازل ھوئی تو دوسری بار جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے قبر پر ان کے لئے استغفار کی دعا مانگ رھے تھے تب بھی یہ آیت نازل ھوئی ان تمام روایات کو اھلسنت مفسرین اور محققین نے ذکر کیا ھے جس میں امام الواحدی رحمہ اللہ کی کتاب اسباب النزول, امام طبری اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ قابلِ ذکر ھے
سب سے پہلے ھم اس آیت کی شانِ نزول دیکھیں گے "اسباب نزول قرآن" سے جو کہ امام الواحدی رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ و معروف کتاب ھے یہ ھمارے علما ء متقدمین میں سے ھیں اور ان کی یہ کتاب کافی معروف و معتبر ھے اتنی کہ خود شیعہ علما بھی اس کی اھمیت و افادیت تسلیم کر چکے ھیں اور اپنی کتب میں اسے اسباب نزول قرآن پر اھم کتابوں میں سے ایک قرار دے چکے ھیں
جیسے کہ مولانا سید محمد عون نقوی اپنی کتاب "عرفان القرآن" میں اس تزکرہ اھم کتب میں کر چکے ھیں.
اب یہ آیت دو مختلف جگہوں پر نازل ھوئی ابی طالب اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدہ کے قبر پر یہ تو اسباب النزول سے ثابت ھوا اب تفسیر ابن کثیر سے ثبوت ملاحظہ ھوں اسی ایک آیت کی دو بار نازل ھونے کا:
تفسیر ابن کثیر سے بھی ثابت ھوا کہ ایک آیت دو مختلف مواقع پر نازل ھو سکتی ھے اور جس آیت پر معترض نے اعتراض کیا اس کی بدقسمتی سے وہی آیت دوبار نازل ھوئی اور یہ بات کتبِ اھلسنت سے ثابت ھے
تو جناب جب ایک آیت دو مختلف مواقع پر نازل ھو سکتی ھے تو اعتراض کس بات کا یہ آیت مکہ میں جناب ابو طالب کے بارے میں بھی نازل ھوئی اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدہ کے قبر پر بھی نازل ھوئی
چنانچہ خلیل الرحمن چشتی صاحب اپنی معروف کتاب جس کا نیا ایڈیشن بھی آیا ھے علمی حلقوں میں کافی مقبولیت کے بعد میں سورۃ التوبة کی شانِ نزول میں لکھتے ھیں سورۃ توبة کی آیت نمبر 113 مکہ میں ابوطالب کے حق میں نازل ھوئی واضح رھے یہ پوری کتاب قرآن کی شانِ نزول پرلکھی گئی ھے
سبحان اللہ یہ تو ثابت ھو گیا کہ ایک ہی آیت کئی مختلف مواقع پر مختلف جگہوں پر نازل ھو سکتی ھے اور یہ آیت بھی اسی طرح ھے یہ کئی مواقع پر نازل ھوئی اور افلاطون کا اعتراض محض جھالت اور دجل پر مبنی ھے
اب معاملہ بالکل واضح ھے لیکن بہتر ھو گا ھم اھلسنت اور اھل تشیع مفسرین و علما سے بھی یہ بات ثابت کرے کہ ایک ہی آیت مختلف مواقع پر نازل ھو سکتی ھے یہ بات میں شیعہ و اھلسنت دونوں طرف کے علما و مفسرین سے ثابت کرونگا ان شاءاللہ
چنانچہ اس بات پر میں سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے "اصول تفسیر" سے شروع کرنا چاھونگا
چنانچہ فرماتے ھیں " اس طرح جب ایک صحابی ایک سبب نزول بتاتا ھوں اور دوسرا صحابی دوسرا سببِ نزول تو اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاھئے کیونکہ ممکن ھے آیت دو مرتبہ نازل ھوئی ھو ایک دفعہ ایک سبب پر دوسری دفعہ دوسرے سبب پر.
سبحان اللہ یہی اصول تفسیر ھے جس سے افلاطون بیچارا ناواقف ھے اور شانِ نزول پر اعتراض کر بیٹھا ھے.
اسطرح حافظ انس نضر صاحب اپنی کتاب "حمید الدین فراہی اور جمھور کے اصولِ تفسیر" میں فرماتے ھیں. "ایک صحابی نے ایک ذکر کر دیا دوسرے نے دوسرا یا ایک صحابی نے دو معنی دو وقتوں میں ذکر کر دئیے تو اس لئے کہ وہ آیت دو مرتبہ اتری ھے"
اب شیعہ کتب سے ثبوت ملاحظہ ھوں خود شیعہ مفسرین کے مطابق سورۃ فاتحہ دو بار نازل ھوا ایک بار مکہ میں ایک بار مدینہ میں. اس پر میں تین معروف ومعتبر شیعہ تفاسیر سے ثبوت پیش کرونگا اور چوتھی گواہی ایک شیعہ عالم کی کتاب سے.
میرے خیال سے یہ چار گواھیاں کافی ھے اس بارے میں کہ ایک ہی آیت مکہ و مدینہ میں مختلف اوقات میں نازل ھو سکتی ھے.
سب سے پہلی گواہی "تفسیر القرآن" جو معروف شیعہ عالم مولانا سید ظفر حسن صاحب کی تفسیر ھے
دوسری گواہی تفسیر انوار النجف سے حسین بخش جاڑا صاحب کی تفسیر سے.
انہوں نے بھی یہی فرمایا ھے کہ سورۃ فاتحہ مکہ میں بھی نازل ھوئی اور مدینہ میں بھی
تیسری گواہی تفسیر نمونہ جو شیعہ محققین کی مدد سے لکھی گئی معروف شیعہ تفسیر ھے آیت اللہ مکارم شیرازی کا نام قابل ذکر ھے ان میں
انہوں نے بھی دوجگہ یہی لکھا ھے کہ یہ سورۃ دو بار نازل ھوئی سورۃ حجر میں بھی یہی کہس ھے سبع مثانی کی تفسیر میں اور سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں
چوتھی گواہی سید علی شرف الدین موسوی کی کتاب معارف القرآن سے فرماتے ھیں یہ سورۃ دو بار نازل ھوئی مکہ میں بھی مدینہ میں بھی
خلاصہ یہ ھے کہ اگر بخاری میں سورۃ توبة کی آیت نمبر 113 کی شانِ نزول یوں ھے کہ یہ مکہ میں نازل ھوئی تو یہ کوئی قابل حیرت بات نہیں ایک آیت دو بار نازل ھوسکتی ھے اور یہ اعتراض محض جھالت پر مبنی ھے کیونکہ یہ بات شیعہ و اھلسنت دونوں کے کتب, علما, مفسرین سے ثابت ھو گئی ...والحمد اللہ
دوسری بات یہ بھی ثابت ھے کہ اس نے کہا میں دینِ عبدالمطلب پر ھوں.
شیعہ کا علامہ ملا باقر مجلسی رقم طراز ہے جس نے ابن ابی الحدید سے نقل کیا:
وقال المجلسي نقلاً عن ابن أبي الحديد في شرح نهج البلاغة: اختلف الناس في إسلام أبي طالب فقال الإمامية والزيدية: ما مات إلا مسلماً وقال بعض شيوخنا المعتزلة بذلك منهم : الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما، وقال أكثر الناس من أهل الحديث والعامة ومن شيوخنا البصريين وغيرهم: مات على دين قومه ويرون في ذلك حديثاً مشهوراً : إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال عند موته: قل يا عم كلمة أشهد لك بها غداً عند الله تعالى، فقال: لولا أن تقول العرب أن أبا طالب جزع عند الموت لأقررت بها عينك، وروي إنه قال: أنا على دين الأشياخ ! وقيل: إنه قال: أنا على دين عبد المطلب وقيل غير ذلك .
وروى كثير من المحدثين أن قوله تعالى:{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ} [ التوبة : 113-114]، أنزلت في أبي طالب لأن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم استغفر له بعد موته .
ورووا أن قوله تعالى:{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} نزلت في أبي طالب .
ورووا أن علياً(ع) جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم! بعد موت أبي طالب فقال له: إن عمك الضال قد قضى فما الذي تأمرني فيه ؟ واحتجوا به لم ينقل أحد عنه أنه رآه يصلي، والصلاة هي المفرقة بين المسلم والكافر، وأن علياً وجعفرا لم يأخذا من تركته شيئا .
ورروا عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: إن الله قد وعدني بتخفيف عذابه لما صنع في حقي وإنه في ضحضاح من نار . ورووا عنه أيضاً إنه قيل له: لو استغفرت لأبيك وأمك فقال: لو استغفرت لهما لاستغفرت لأبي طالب فإنه صنع إليّ ما لم يصنعا ،و أن عبد الله وآمنة وأبا طالب في حجرة من حجرات جهنم . انظر كل ذلك في البحار (( 35 / 155 )) .
وقت کی قلت کی وجہ ہم اس کا مکمل ترجمہ نہیں کرتے لیکن اس سے جو ثابت ہوتا ہے وہ آپ کے شامنے پیش کرتے ہیں:
ابو طالب کے اسلام لانے میں شیعہ علماء آپس میں اختلاف ہے شیعہ امامہ اور زیدیہ نے کہا کہ وہ مسلمان ہو کرفوت ہوئے اور بعض معتزلہ شیوخ جس میں الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما اور اکثرلوگ أهل الحديث میں سے اور العامة میں سے اورہمارے مشائخ بصرہ والے وغيرھم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم والوں کے دین پر فوت ہوا تھا یعنی جس پر قریش تھے اس پر وہ مشھور حدیث روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے چچا کلمہ کہ دومیں کل کو اللہ کے حضور آپ کے حق میں گواہ رہوں گا۔ اس پر ابو طالب نے کہا اگر مجھے اس کا ڈر نہ ہوتا کہ عرب یہ نہ کہیں کہ ابو طالب موت کے وقت ڈر گیا تو میں کلمہ کا اقرار کر لیتا۔ اور بعض نے روایت کہ کہ ابو طالب نے کہا میں اپنے بڑوں کے دین پر ہوں اور بعض نے کہا انہوں نے کہا میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔
اور بہتے سے محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ قرآن کی یہ آیت:
{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ}
[ التوبة : 113-114]
"پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں" – "اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کا سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے"
یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ ابو طالب کیلئے ان کی وفات کے بعد دعا کر رہے تھے.
اور یہ بھی روایت کی کہ :{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے [سورۃ القصص : 56 ] ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی
اور یہ بھی روایت کی کہ علی "ع" اپنے والد کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا: آپ کے چچا گمراہی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اور نہ ہی کسی نے اسے کبھی نماز پڑھتے دیکھا کیونکہ نماز مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے، اور جو وہ مرنے کے بعد چھوڑ گئے تھے اس میں سے علی اور جعفر نے کچھ بھی نہ لیا۔
اور یہ بھی روایت کی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ میرے چچا کو ہلکا عذاب دیا جائے گا جو انہوں نے میرے حق میں کیا تھا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہو گا.
اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ اور آمنہ "یعنی آپ ﷺ کے والدین" اور ابو طالب جہنم کے حجروں میں سے ایک حجرے میں ہونگے۔
(شیعہ کتاب: بحارالانوار / جلد35 / صفحہ 155)
تفسير القمي : علي بن إبراهيم في تفسيره قوله تعالى: { إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [ القصص : 56 ] ، قال: نزلت في أبي طالب فإن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يقول: يا عم قل لا إله إلا الله أنفعك بها يوم القيامة ، فيقول يابن أخي أنا أعلم بنفسي فلما مات شهد العباس بن عبد المطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه تكلم بها عند الموت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : أما أنا فلم أسمعها منه وأرجوا انفعه يوم القيامة .
تفسير القمي (( 2 / 142 )) , (( القصص ص: 56 ))
تفسیر البرهان (( 3 / 230 ))
ترجمہ:
اللہ تعالی کا یہ قول:
اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے
[سورۃ القصص : 56 ]
کہا کہ یہ آیت ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ اپنے چچا سے کہ رہے تھے "اے چچا لا الہ الا اللہ پڑھ لو میں اس کے طفیل آپ کو قیامت کے دن نفع پہنچاوں گا" تو انہوں نے کہا میں اپنے نفس کو جانتا ہوں۔ جب ابو طالب فوت ہوئے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا۔ کیا موت کے وقت انہوں نے کلمہ پڑھا تھا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا: "میں نے تو ان سے کچھ بھی نہیں سنا تھا، اور نہ ہی میں قیامت کے دن اسے نفع پہنچاو گا"
(شیعہ کتاب: تفسير القمي (( 2 / 142 )) , القصص ص: 56)
مشھور رافضی مفسر قرآن سید ھاشم البحرانی اپنی تفسیر البرھان میں ایک دوسرے رافضی مفسر علی بن ابراھیم القمی کی تفسیر سے ایک روایت نقل کرتا ھے قرآن کی سورہ القصص آیت نمبر ۵۶ ترجمہ ( اے محمد ﷺ آپ جس کو دوست رکھتے ھیں اس کو ھدائت نھیں دے سکتے ) رافضی مفسر لکھتا ھے یہ آئت ابو طالب کہ بارے میں نازل ھوئی جب رسول اللہ اپنے چچا سے کھ رھے تھے کہ چچا کلمہ لا اله الا الله پڑھ لو مین اس کہ طفیل آپ کو قیامت کہ دن نفع پھنچاوں گا ابو طالب نے کھا مین اپنے نفس کو جانتا ھوں جب ابو طالب فوت ھوئے تو حضرت عباس بن عبد المطلب نے پوچھا کہ کیا ابو طالب نے کلمہ پڑھ لیا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تو ان سے کچھ بھی نھیں سنا تھا اور نہ ھی میں قیامت کہ دن اپنے چچا ابو طالب کو کوئی نفع پھنچاوں گا ،،،،، حوالہ تفسیر البرھان مصنف سید ھاشم البحرانی جلد نمبر ۶ صفحہ نمبر ۸۱ زیر تحت تفسیر سورہ القصص رقم ۵۶( انک لا تهدی من احببت ) مطبوعہ بیروت لبنان)