Pages

Wednesday, 20 September 2017

ایمان ابو طالب پر ایک رافضی کی بخاری کی حدیث پر زبان درازی اور اس کا جواب

اس تحریر کے تمام حوالہ جات موجودہ لنک پر موجود ہے۔
افلاطون رافضی کا اعتراض تفسیر اور اصولِ تفسیر سے سراسر جھالت پر مبنی ھے اس کی اصل وجہ شیعوں کے پاس علومِ تفسیر نا ھونا ھے تفسیر کے معاملے میں شیعہ ھمیشہ اھلسنت کے محتاج رھے ھیں اس لئے طوسی کی تفسیر سے طبرسی کے مجمع البیان تک آپ کو کثرت سے ان تفاسیر میں اھلسنت مفسرین کےآراء و روایات ملیں گی لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا ھو گا کہ امام قرطبی, سے لیکر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کسی شیعہ تفسیر کی مدد لی ھو اس بات کا اعتراف تفسیر صافی کے مصنف نے بھی کیا مقدمے میں..تو میں دراصل یہ کہنا چاہ رھا تھا کہ شیعہ اصولِ تفسیر اور علومِ نزول قرآن سے جاھل ھونے کے ساتھ ساتھ اھلسنت کے محتاج بھی ھے ان کے حالیہ تفاسیر تفسیرِ نمونہ جیسے تفاسیر بھی کتبِ اھلسنت کے حوالوں سے مزین ھیں والحمد للہ
افلاطون کا اصل اعتراض اس روایت پر یہ ھے کہ چونکہ سورۃ برات بخاری اور مفسرین کے مطابق آخری نازل ھونے والی سورۃ ھے تو اس کی آیت نمبر 113 مکے میں کیسے نازل ھوئی؟؟؟
سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاھونگا کہ اھلسنت کے متقدمین اور متاخرین مفسرین اس بات پر متفق ھے کہ یہ آیت جنابِ ابوطالب کے بارے میں نازل ھوئی
دوسری بات افلاطون کی جاھلیت ملاحظہ ھوں اسے اتنا نہیں پتا کہ کوئی ایک ہی آیت دو بار بھی نازل ھو سکتی ھے اب یہی والی آیت لے لیں جس پر اس رافضی نے اعتراض کیا ھے یہ آیت ایک بار جنابِ ابوطالب کے بارے میں نازل ھوئی تو دوسری بار جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے قبر پر ان کے لئے استغفار کی دعا مانگ رھے تھے تب بھی یہ آیت نازل ھوئی ان تمام روایات کو اھلسنت مفسرین اور محققین نے ذکر کیا ھے جس میں امام الواحدی رحمہ اللہ کی کتاب اسباب النزول, امام طبری اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ قابلِ ذکر ھے
سب سے پہلے ھم اس آیت کی شانِ نزول دیکھیں گے "اسباب نزول قرآن" سے جو کہ امام الواحدی رحمہ اللہ کی مشہورِ زمانہ و معروف کتاب ھے یہ ھمارے علما ء متقدمین میں سے ھیں اور ان کی یہ کتاب کافی معروف و معتبر ھے اتنی کہ خود شیعہ علما بھی اس کی اھمیت و افادیت تسلیم کر چکے ھیں اور اپنی کتب میں اسے اسباب نزول قرآن پر اھم کتابوں میں سے ایک قرار دے چکے ھیں
جیسے کہ مولانا سید محمد عون نقوی اپنی کتاب "عرفان القرآن" میں اس تزکرہ اھم کتب میں کر چکے ھیں.
اب یہ آیت دو مختلف جگہوں پر نازل ھوئی ابی طالب اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدہ کے قبر پر یہ تو اسباب النزول سے ثابت ھوا اب تفسیر ابن کثیر سے ثبوت ملاحظہ ھوں اسی ایک آیت کی دو بار نازل ھونے کا:
تفسیر ابن کثیر سے بھی ثابت ھوا کہ ایک آیت دو مختلف مواقع پر نازل ھو سکتی ھے اور جس آیت پر معترض نے اعتراض کیا اس کی بدقسمتی سے وہی آیت دوبار نازل ھوئی اور یہ بات کتبِ اھلسنت سے ثابت ھے
تو جناب جب ایک آیت دو مختلف مواقع پر نازل ھو سکتی ھے تو اعتراض کس بات کا یہ آیت مکہ میں جناب ابو طالب کے بارے میں بھی نازل ھوئی اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدہ کے قبر پر بھی نازل ھوئی
چنانچہ خلیل الرحمن چشتی صاحب اپنی معروف کتاب جس کا نیا ایڈیشن بھی آیا ھے علمی حلقوں میں کافی مقبولیت کے بعد میں سورۃ التوبة کی شانِ نزول میں لکھتے ھیں سورۃ توبة کی آیت نمبر 113 مکہ میں ابوطالب کے حق میں نازل ھوئی واضح رھے یہ پوری کتاب قرآن کی شانِ نزول پرلکھی گئی ھے
سبحان اللہ یہ تو ثابت ھو گیا کہ ایک ہی آیت کئی مختلف مواقع پر مختلف جگہوں پر نازل ھو سکتی ھے اور یہ آیت بھی اسی طرح ھے یہ کئی مواقع پر نازل ھوئی اور افلاطون کا اعتراض محض جھالت اور دجل پر مبنی ھے
​اب معاملہ بالکل واضح ھے لیکن بہتر ھو گا ھم اھلسنت اور اھل تشیع مفسرین و علما سے بھی یہ بات ثابت کرے کہ ایک ہی آیت مختلف مواقع پر نازل ھو سکتی ھے یہ بات میں شیعہ و اھلسنت دونوں طرف کے علما و مفسرین سے ثابت کرونگا ان شاءاللہ
چنانچہ اس بات پر میں سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے "اصول تفسیر" سے شروع کرنا چاھونگا
چنانچہ فرماتے ھیں " اس طرح جب ایک صحابی ایک سبب نزول بتاتا ھوں اور دوسرا صحابی دوسرا سببِ نزول تو اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاھئے کیونکہ ممکن ھے آیت دو مرتبہ نازل ھوئی ھو ایک دفعہ ایک سبب پر دوسری دفعہ دوسرے سبب پر.
سبحان اللہ یہی اصول تفسیر ھے جس سے افلاطون بیچارا ناواقف ھے اور شانِ نزول پر اعتراض کر بیٹھا ھے.

اسطرح حافظ انس نضر صاحب اپنی کتاب "حمید الدین فراہی اور جمھور کے اصولِ تفسیر" میں فرماتے ھیں. "ایک صحابی نے ایک ذکر کر دیا دوسرے نے دوسرا یا ایک صحابی نے دو معنی دو وقتوں میں ذکر کر دئیے تو اس لئے کہ وہ آیت دو مرتبہ اتری ھے"
اب شیعہ کتب سے ثبوت ملاحظہ ھوں خود شیعہ مفسرین کے مطابق سورۃ فاتحہ دو بار نازل ھوا ایک بار مکہ میں ایک بار مدینہ میں. اس پر میں تین معروف ومعتبر شیعہ تفاسیر سے ثبوت پیش کرونگا اور چوتھی گواہی ایک شیعہ عالم کی کتاب سے.
میرے خیال سے یہ چار گواھیاں کافی ھے اس بارے میں کہ ایک ہی آیت مکہ و مدینہ میں مختلف اوقات میں نازل ھو سکتی ھے.
سب سے پہلی گواہی "تفسیر القرآن" جو معروف شیعہ عالم مولانا سید ظفر حسن صاحب کی تفسیر ھے
دوسری گواہی تفسیر انوار النجف سے حسین بخش جاڑا صاحب کی تفسیر سے.
انہوں نے بھی یہی فرمایا ھے کہ سورۃ فاتحہ مکہ میں بھی نازل ھوئی اور مدینہ میں بھی

تیسری گواہی تفسیر نمونہ جو شیعہ محققین کی مدد سے لکھی گئی معروف شیعہ تفسیر ھے آیت اللہ مکارم شیرازی کا نام قابل ذکر ھے ان میں
انہوں نے بھی دوجگہ یہی لکھا ھے کہ یہ سورۃ دو بار نازل ھوئی سورۃ حجر میں بھی یہی کہس ھے سبع مثانی کی تفسیر میں اور سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں
چوتھی گواہی سید علی شرف الدین موسوی کی کتاب معارف القرآن سے فرماتے ھیں یہ سورۃ دو بار نازل ھوئی مکہ میں بھی مدینہ میں بھی

خلاصہ یہ ھے کہ اگر بخاری میں سورۃ توبة کی آیت نمبر 113 کی شانِ نزول یوں ھے کہ یہ مکہ میں نازل ھوئی تو یہ کوئی قابل حیرت بات نہیں ایک آیت دو بار نازل ھوسکتی ھے اور یہ اعتراض محض جھالت پر مبنی ھے کیونکہ یہ بات شیعہ و اھلسنت دونوں کے کتب, علما, مفسرین سے ثابت ھو گئی ...والحمد اللہ​
دوسری بات یہ بھی ثابت ھے کہ اس نے کہا میں دینِ عبدالمطلب پر ھوں.
شیعہ کا علامہ ملا باقر مجلسی رقم طراز ہے جس نے ابن ابی الحدید سے نقل کیا:
وقال المجلسي نقلاً عن ابن أبي الحديد في شرح نهج البلاغة: اختلف الناس في إسلام أبي طالب فقال الإمامية والزيدية: ما مات إلا مسلماً وقال بعض شيوخنا المعتزلة بذلك منهم : الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما، وقال أكثر الناس من أهل الحديث والعامة ومن شيوخنا البصريين وغيرهم: مات على دين قومه ويرون في ذلك حديثاً مشهوراً : إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال عند موته: قل يا عم كلمة أشهد لك بها غداً عند الله تعالى، فقال: لولا أن تقول العرب أن أبا طالب جزع عند الموت لأقررت بها عينك، وروي إنه قال: أنا على دين الأشياخ ! وقيل: إنه قال: أنا على دين عبد المطلب وقيل غير ذلك .
وروى كثير من المحدثين أن قوله تعالى:{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ} [ التوبة : 113-114]، أنزلت في أبي طالب لأن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم استغفر له بعد موته .
ورووا أن قوله تعالى:{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} نزلت في أبي طالب .
ورووا أن علياً(ع) جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم! بعد موت أبي طالب فقال له: إن عمك الضال قد قضى فما الذي تأمرني فيه ؟ واحتجوا به لم ينقل أحد عنه أنه رآه يصلي، والصلاة هي المفرقة بين المسلم والكافر، وأن علياً وجعفرا لم يأخذا من تركته شيئا .
ورروا عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: إن الله قد وعدني بتخفيف عذابه لما صنع في حقي وإنه في ضحضاح من نار . ورووا عنه أيضاً إنه قيل له: لو استغفرت لأبيك وأمك فقال: لو استغفرت لهما لاستغفرت لأبي طالب فإنه صنع إليّ ما لم يصنعا ،و أن عبد الله وآمنة وأبا طالب في حجرة من حجرات جهنم . انظر كل ذلك في البحار (( 35 / 155 )) .

وقت کی قلت کی وجہ ہم اس کا مکمل ترجمہ نہیں کرتے لیکن اس سے جو ثابت ہوتا ہے وہ آپ کے شامنے پیش کرتے ہیں:
ابو طالب کے اسلام لانے میں شیعہ علماء آپس میں اختلاف ہے شیعہ امامہ اور زیدیہ نے کہا کہ وہ مسلمان ہو کرفوت ہوئے اور بعض معتزلہ شیوخ جس میں الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما اور اکثرلوگ أهل الحديث میں سے اور العامة میں سے اورہمارے مشائخ بصرہ والے وغيرھم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم والوں کے دین پر فوت ہوا تھا یعنی جس پر قریش تھے اس پر وہ مشھور حدیث روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے چچا کلمہ کہ دومیں کل کو اللہ کے حضور آپ کے حق میں گواہ رہوں گا۔ اس پر ابو طالب نے کہا اگر مجھے اس کا ڈر نہ ہوتا کہ عرب یہ نہ کہیں کہ ابو طالب موت کے وقت ڈر گیا تو میں کلمہ کا اقرار کر لیتا۔ اور بعض نے روایت کہ کہ ابو طالب نے کہا میں اپنے بڑوں کے دین پر ہوں اور بعض نے کہا انہوں نے کہا میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔
اور بہتے سے محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ قرآن کی یہ آیت:
{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ}
[ التوبة : 113-114]
"پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں" – "اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کا سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے"
یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ ابو طالب کیلئے ان کی وفات کے بعد دعا کر رہے تھے.
اور یہ بھی روایت کی کہ :{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے [سورۃ القصص : 56 ] ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی
اور یہ بھی روایت کی کہ علی "ع" اپنے والد کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا: آپ کے چچا گمراہی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اور نہ ہی کسی نے اسے کبھی نماز پڑھتے دیکھا کیونکہ نماز مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے، اور جو وہ مرنے کے بعد چھوڑ گئے تھے اس میں سے علی اور جعفر نے کچھ بھی نہ لیا۔
اور یہ بھی روایت کی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ میرے چچا کو ہلکا عذاب دیا جائے گا جو انہوں نے میرے حق میں کیا تھا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہو گا.
اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ اور آمنہ "یعنی آپ ﷺ کے والدین" اور ابو طالب جہنم کے حجروں میں سے ایک حجرے میں ہونگے۔
(شیعہ کتاب: بحارالانوار / جلد35 / صفحہ 155)

تفسير القمي : علي بن إبراهيم في تفسيره قوله تعالى: { إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [ القصص : 56 ] ، قال: نزلت في أبي طالب فإن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يقول: يا عم قل لا إله إلا الله أنفعك بها يوم القيامة ، فيقول يابن أخي أنا أعلم بنفسي فلما مات شهد العباس بن عبد المطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه تكلم بها عند الموت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : أما أنا فلم أسمعها منه وأرجوا انفعه يوم القيامة .
تفسير القمي (( 2 / 142 )) , (( القصص ص: 56 ))
تفسیر البرهان (( 3 / 230 ))
ترجمہ:
اللہ تعالی کا یہ قول:
اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے
[سورۃ القصص : 56 ]
کہا کہ یہ آیت ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ اپنے چچا سے کہ رہے تھے "اے چچا لا الہ الا اللہ پڑھ لو میں اس کے طفیل آپ کو قیامت کے دن نفع پہنچاوں گا" تو انہوں نے کہا میں اپنے نفس کو جانتا ہوں۔ جب ابو طالب فوت ہوئے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا۔ کیا موت کے وقت انہوں نے کلمہ پڑھا تھا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا: "میں نے تو ان سے کچھ بھی نہیں سنا تھا، اور نہ ہی میں قیامت کے دن اسے نفع پہنچاو گا"
(شیعہ کتاب: تفسير القمي (( 2 / 142 )) , القصص ص: 56)
مشھور رافضی مفسر قرآن سید ھاشم البحرانی اپنی تفسیر البرھان میں ایک دوسرے رافضی مفسر علی بن ابراھیم القمی کی تفسیر سے ایک روایت نقل کرتا ھے قرآن کی سورہ القصص آیت نمبر ۵۶ ترجمہ ( اے محمد ﷺ آپ جس کو دوست رکھتے ھیں اس کو ھدائت نھیں دے سکتے ) رافضی مفسر لکھتا ھے یہ آئت ابو طالب کہ بارے میں نازل ھوئی جب رسول اللہ اپنے چچا سے کھ رھے تھے کہ چچا کلمہ لا اله الا الله پڑھ لو مین اس کہ طفیل آپ کو قیامت کہ دن نفع پھنچاوں گا ابو طالب نے کھا مین اپنے نفس کو جانتا ھوں جب ابو طالب فوت ھوئے تو حضرت عباس بن عبد المطلب نے پوچھا کہ کیا ابو طالب نے کلمہ پڑھ لیا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے تو ان سے کچھ بھی نھیں سنا تھا اور نہ ھی میں قیامت کہ دن اپنے چچا ابو طالب کو کوئی نفع پھنچاوں گا ،،،،، حوالہ تفسیر البرھان مصنف سید ھاشم البحرانی جلد نمبر ۶ صفحہ نمبر ۸۱ زیر تحت تفسیر سورہ القصص رقم ۵۶( انک لا تهدی من احببت ) مطبوعہ بیروت لبنان)


Sunday, 17 September 2017


امام شافعی کے شاعرانہ کلام میں یہ شعر بھی ہمیں امام شافعی کی طرف منسوب ملتا ہے ۔



ان كان رفضا حب ال محمد
فليشهد الثقلان اني رافضي ۔

جہاں تک ان اشعار کی اصل اور اس کے مصدر کا سوال ہے، ان اشعار کا اولین مصدر امام بیہقی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو ربیع بن سلیمان سے نقل کیا ہے اور ربیع بن سلیمان تن تنہا اکلوتے راوی ہیں جنہوں نے ان اشعار کو امام شافعی سے نقل کیا ہے۔
چنانچہ امام بیہقی نے ان اشعار کو امام شافعی سے بایں سند نقل کیا ہے۔

کتاب مناقب الشافعي للبيهقي میں اس کی سند ہے
أخبرنا أبو زكريا بن أبي إسحاق المزّكِّي حدثنا الزبير بن عبد الواحد الحافظ أخبرني محمد بن محمد بن الأشعث، حدثنا الربيع قال:
أنشدنا الشافعي رضي الله عنه:
يا راكباً قِف بالمُحَصَّبِ من مِنى … واهتف بقاعد خِيفها والناهِض
سَحَراً إذا فاض الحجيجُ إلى مِنى … فَيضاً كمُلْتَطم الفُرَاتِ الفائض
إن كان رَفْضاً حبُّ آلِ محمدٍ … فَلْيَشْهَدِ الثقلانِ أني رافضي

اگر ال محمد سے محبت رفض ہے تو ثقلان گواہ ہیں میں رافضی ہوں
اس کی سند میں محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي ہے جس پر دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ
قال السهمى: سألت الدارقطني عنه، فقال: آية من آيات الله، وضع ذاك الكتاب – يعنى العلويات.
الله کی نشانیوں میں سے ایک ہے جس نے اس کتاب کو گھڑا یعنی العلویات
یعنی اس نے علی کی منقبت میں روایات اور اشعار گھڑے
ابن عدی کہتے ہیں حمله شدة تشيعه اس پر شیعیت کا حملہ ہے
کتاب ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين میں الذھبی کہتے ہیں
محمد بن محمد بن الأشعث الكوفي: بمصر، شيعي جلد، اتهمه ابن عدي مصری کھلا شیعہ ہے
یعنی یہ اشعار امام الشافعی پر جھوٹ گھڑا کیا گیا ہے
کتاب طبقات الشافعيين از ابن کثیر کے مطابق سند ہے
وقال الحافظ أبو القاسم ابن عساكر: أخبرنا أبو الحسن الموازيني، قراءة عليه، عن أبي عبد الله القضاعي، قال: قرأت على أبي عبد الله محمد بن أحمد بن محمد، حدثنا الحسين بن علي بن محمد بن إسحاق الحلبي، حدثني جدي محمد وأحمد ابنا إسحاق بن محمد، قالا: سمعنا جعفر بن محمد بن أحمد الرواس، بدمشق، يقول: سمعت الربيع،
اس سند میں جعفر بن محمد مجھول ہے
کتاب تاریخ الدمشق میں إسماعيل بن علي بن الحسين ابن بندار بن المثنى أبو سعد الاستراباذي الواعظ کے ترجمہ میں ابن عساکر لکھتے ہیں
قال الخطيب: ولم يكن موثوقاً في الرواية.
وأنشد، بسنده عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي: من الكامل؟ يا راكباً قف بالمحصب من منى واهتف بقاطن خيفها والناهض
سحراً إذا فاض الحجيج إلى منى … فيضاً كملتطم الفرات الفائض
إن كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي قال حمد الرهاوي: لما ظهر لأصحابنا كذب إسماعيل بن المثنى أحضروا جميع ما كتبوا عنه وشققوه ورموا به بين يديه

خطیب بغدادی نے کہا یہ روایت میں موثق نہیں ہے اور شعر عن الربيع بن سليمان، أنشدنا الشافعي کی سند سے بتائے … ان كان رفضاً حب آل محمدٍ فليشهد الثقلان أني رافضي
حمد الرهاوي نے کہا کہ جب إسماعيل بن المثنى الاستراباذي کا یہ کذب ظاہر ہوا ہم نے جو لکھا اس کو جمع کیا اور اپنے سامنے مٹایا
تاریخ الاسلام میں امام الذھبی نے اس کی سند دی ہے
قَالَ الحاكم: أخبرني الزُّبَيْر بن عبد الواحد الحافظ، قال: أخبرنا أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري، قال: حدثنا الربيع بْن سليمان قَالَ: حَجَجْنا مَعَ الشّافعيّ، فما ارتقى شُرُفًا، ولا هبط واديًا، إلّا وهو يبكي وينشد:
يا راكبًا قفْ بالمُحَصَّبِ من منى … واهتف بقاعد خيفنا والنّاهضِ
سَحَرًا إذا فاض الحَجيجُ إلى مِنَى … فَيْضًا كمُلْتَطَم الفُرات الفائضِ
إنّ كَانَ رفضًا حُبُّ آلِ محمّدٍ … فلْيَشْهَد الثَّقَلان أنّي رافضي

اس کی سند میں أبو عمارة حمزة بن علي الجوهري لا معلوم ہے
اس کی اسناد میں کوئی بھی ثابت نہیں ہے
جبکہ امام الشافعی کا قول تو یہ ہے-
قَالَ البُوَيْطِيُّ: سَأَلْتُ الشَّافِعِيَّ: أُصَلِّي خَلْفَ الرَّافِضِيِّ؟ قَالَ: لاَ تُصَلِّ خَلْفَ الرَّافِضِيِّ
کیا رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لیں کہا نہیں پڑھو
الكتاب: الإمام الشافعي وموقفه من الرافضة



Friday, 8 September 2017

حدیث عبداللہ بن عمرو قال:(العرش مطوق بحیۃ والوحي ینزل فی السلاسل۔

یہ اثر تین وجوہ کی وجہ سے ضعیف ہے
(الاوليولا علة لهذا الحديث إلا كثير بن أبى كثير ووهمه ، أو قتادة وتدليسه !! . 

.
( الثانية ) قتادة ثقة جليل حجَّة لكنه مشهور بالتدليس عن المشاهير ، فكيف بالمغمورين ؟! . وفى (( تهذيب التهذيب ))(8/318) عن أبى داود قال : حدَّث قتادة عن ثلاثين رجلاً لم يسمع منهم ! .
( الثالثة ) معاذ بن هشام الدستوائى صدوق مكثر عن أبيه ، وله أحاديث صالحة ، لكنه يغلط فى الشئ بعد الشئ ، قاله أبو أحمد بن عدى . وفى حديثه عن أبيه فى غير (( الصحيحين )) دغل كثير ، وأفراد وغرائب .
وواحدة من العلل الثلاثة كافية فى رد الحديث ، فكيف وقد اجتمعت ! .


اسماء بنت ابو بکرؓ پر متعہ کے الزام کا  جواب 

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پر متعہ سے پیدا ھونے کا الزام شیعوں نے یہ بھی ہرزہ سرائی کی ھے کے معاذاللہ حضرت عبداللہ بن زبیر رض متعہ سے پیدا ھوے حالانکہ یہ دعوی سراسر لغو کذب و افترا باطل و مردود و بہتان ھے نیز صحابہ سے انتہائی بغض وعناد اور کتب تاریخ سے نا علم ھونے کی بین دلیل ھے اس لغو الزام کی تردید کرنے کی ضرورت تو نا تھی تاہم تاریخی طور پر ھم اس کو ثابت کرتے ھیں کے حضرت عبداللہ رض حواری رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیرؓ کے فرزند ارجمند اور حضرت اسما ؓ کے لخت جگر ( شیعہ مومنینن کی طرح ) متعہ کی پیداوار نہیں بلکہ صیح اور جائز نکاح سے پیدا ھوے ھین -
 چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ حضرت اسما ء ؓ کے حالات کے ضمن میں لکھتے ھیں حضرت اسماء ؓ مکہ میں ابتدا میں ھی حلقہ بگوش اسلام ھو گئی تھیں اور حضرت زبیرؓ نے ان سے نکاح کیا تھا اور جب حضرت اسماءؓ  نے مدنیۃ الرسول کی ہجرت کی تو اس وقت حاملہ تھیں چنانچہ جب مدینہ کے قریب پہنچی تو وہاں حضرت عبداللہ ؓ پیدا ھوے -

(اصابہ جلد 4 ص 335 )

ابن سعد حضرت اسماء ؓ کے تزکرہ میں لکھتے ہیں حضرت اسماء ؓ سے حضرت زبیرؓ بن عوام نے نکاح کیا ان سے حضرت عبداللہ ؓ پیدا ھوے - 
سعد لکھتے ہیں
تزوجها الزبير بن العوام بن خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي فولدت له عبد الله
حضرت اسماء سے حضرت زبیر بن عوام نے نکاح کیا ۔ ان سے حضرت عبداللہ پیدا ہوئے۔

تقریب التہذیب میں عبداللہ بن ذبیر ؓ کے حالات میں  ھے-کہ حضرت اسماءؓ نے جب ہجرت مدینہ کی تو اس وقت حمل کی حالت مین تھیں فرماتی ھیں کے جب مقام قباء پہنچی تو عبداللہ پیدا ھوے اسے گود میں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنے
 آغوش مبارک میں لے لیا ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لعاب دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ کے منہ مین ڈال دیا پہلے چیز جو عبداللہ ؓ کے پیٹ میں گئی وہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا آپ نے دو مرتبہ گڑتی دی اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے دعائے خیرو برکت مانگی ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے مولود فی الاسلام حضرت عبداللہ بن ذبیرؓ تھے-

(تقریب التہذیب جلد 2 ص 589)

حافط ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں فرماتے ھیں کہ جب حضرت اسماء ؓ عمر رسیدہ ھو گیئں تو حضرت زبیر ؓ نے انھیں طلاق دے دی تھی- الغرض اس سے معلوم ھوا کے حضرت اسماءؓ کا حضرت زیبرؓ سے نکاح ھو تھا کیونکہ طلاق تسنیخ نکاح کے لوازمات میں سے ھے زن متموعہ کی علیحدگی کے لیے طلاق کی ضرورت ھی نہیں کیونکہ انقطاع میعاد ھی طلاق سمجھی جاتی ھے -

(البدایہ و النہایہ ص 34 جلد 5)

اور رافضیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انکی فقہ میں متعہ میں طلاق نہیں ہوتی۔

محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد بن عيسى عن الحسين سعيد ومحمد بن خالد البرقي عن القاسم بن عروة عن عبد الحميد عن محمد بن مسلم عن أبي جعفر (ع) في المتعة قال : ليست من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث وإنما هي مستأجرة 

امام باقر سے متعہ کی بابت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ممتوعہ چار میں سے نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لئے طلاق نہیں ہے نہ وہ خاوند سے میراث کی مستحق ہے بلکہ وہ مستاجرہ ہے، ﴿یعنی کرایہ کی عورت ہے﴾۔ 


اورہمیں معلوم ہے کہ حضرت زبیرؓ نے حضرت اسماءؓ کو بعد میں طلاق دی تھی۔ 

أن الزبير طلق أسماء فأخذ عروة وهو يومئذ صغير
حضرت زبیرؓ نے حضرت اسماءؓ کو طلاق دے دی۔ اور عروہ جو ابھی بچے تھے، انہیں زبیرؓ نے اپنے پاس رکھ لیا۔ 


حضرت اسماءؓ کی دیگر اولاد: حضرت زبیرؓ سے حضرت اسماء ؓ کو اللہ نے 5 بیٹے اور 3 بیٹاں عطا کیں کی تھیں مگر تعجب کی بات یہ ھے کے شیعہ رافضیوں نے نے صرف حضرت عبداللہ پر متعہ سے اولاد ھونے کا بے بنیاد الزام لگایا -یاللعجب

امام شافعی کے نزدیک چار صحابہ کی گواہی قابل قابل نہیں


روافض کے اس اعتراض کا جواب




"وروي عن الشافعي رحمة الله عليه، أنه أسرّ إِلى الربيع، أنّه لا يقبل شهادة أربعة من الصحابة، وهم معاوية، وعمرو بن العاص، والمغيرة، وزياد." 
المختصر في تاريخ البشر لأبي الفداء (1/259)


الجـــــواب :

أبو الفداء كان في القرن الثامن ولم يذكر سنده أو مرجعه في هذا النقل ، وقد ساقه بصيغة التمريض، فعلى المحتج به أن يذكر ذلك عن الشافعي بسند صحيح، أما أن يحتج بنقل مضعف من القرن الثامن بدون سند فهذا غير صواب.


أبي الفدا جو آٹھویں صدی میں گزرے ہیں انہوں نے اپنی کتاب "المختصر فی تاریخ البشر" میں شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ چار صحابہ کی گواہی نہیں لی جائے گی جن میں معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ اور زیاد شامل ہیں -

اس کا جواب دیا گیا ہے کہ ابو الفداء تو آٹھویں صدی کے ہیں اور انہوں نے اپنی سند یا مرجع کا ذکر نہیں کیا جہاں سے انہوں نے یہ نقل کیا، تو جو اس کو حجت سمجھتے ہیں وہ یہ بات شافعی سے سند صحیح کے ساتھ پیش کرے، اگر نہیں کر سکتا اور آٹھویں صدی کے ایک بندے کی بے سند بات کو نقل کر کے حجت بناتا ہے تو یہ درست نہیں ہے -


الأعلام للزركلي کی جلد: 1/۔۔۔صفحہ نمبر:319 پر ان ابو الفداء کے حالات ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔




روافض کے ایک اعتراض کا جواب کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کے ١٢ ہزار درہم غصب کیے۔



حضرت ابو ہریرہؓ پر الزام کا جواب




یہ واقعہ صرف اتنا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین سے طلب کر کے پوچھا کہ یہ مال آپ نے کہاں سے حاصل کیا؟حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس کچھ گھوڑیا تھیں ان کی نسل میں افزائش ہوئی اس کے ساتھ ساتھ کچھ تنخواہیں جمع ہوگئیں، باقی ماندہ مال میرے غلام کی کمائی کا ہے۔ تحقیق کرنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے درست پایا پھر آپ نے دوبارہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحال کرنا چاہا مگر وہ نہ مانے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ''ملازمت تو اس سے بہتر شخص (حضرت یوسف) نے بھی طلب کی تھی ''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے وہ تو حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو خود نبی بھی تھے اور نبی زادہ بھی تھےاور میں امیمہ کا بیٹا ابو ہریرہ ہوں ۔'' اس واقعہ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دیگر عمال کی طرح حضرت عمر نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا محاسبہ کیا تھا اور تحقیق کرنے پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو الزام تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو دوبارہ بحال کرنا چاہا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سیرت بے داغ تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور آپ کو امین خیال کر تے تھے، اگر امین خیال نہ کرتے تو کیا دوبارہ ان کو بحال کرنے کی کوشش کرتے؟؟





دوسرا امام حاکم نے اپنی اسی کتاب ''المستدرک'' میں حضرت ابو ہریرہ کی مدح وتوصیف میں ایک نہایت قیمتی فصل منعقد کر کے بکثرت احادیث نقل کی ہیں جن سے ان کی عظمت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے،امام حاکم نے اس فصل کو اپنے استاد محترم ابو بکر کے مندرجہ ذیل نظریات پر ختم کیا ہے چنانچہ ابو بکر فرماتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کرنے کے لئے وہ شخص گفتگو کرتا ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا ہو اور وہ احادیث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہویا تو وہ شخص فرقہ جہمیہ معطلہ میں سے ہوگاجو اپنے نظریے کے خلاف ابو ہریرہ کی مرویات سن کر ان کو گالیاں دیگا اور ادنٰی درجے کے لوگوں کو یہ تاثر دینےکی کوشش کریگا کہ یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہیں۔ یا وہ شخص خارجی ہوگا جس کے نزدیک ساری امت محمدی واجب القتل ہے اور کسی خلیفہ اور امام کی اطاعت ضروری نہیں ایسا شخص جب اپنے گمرہانہ عقائد کے خلاف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنی کی روایت کردہ احادیث کو دیکھے گا اور کسی دلیل اور برہان سے ان کا جواب نہ دے سکے گا تو فی الفور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے گا۔ یا وہ شخص قدریہ (منکرین تقدیر) میں سے ہوگا جن کا اسلام اور اہل اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور جو تقدیر کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ایسا شخص جب اثبات تقدیر کے مسئلہ سے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث دیکھے گا تو اپنی بر کفر عقیدے کی تائید و حمایت میں اسے کوئی دلیل نہ ملے گی تو وہ کہے گا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات استناد واحتجاج کے قابل نہیں۔ یا وہ شخص جاہل ہوگا جو جہالت کے باوجود فقہ دانی کا مدعی ہے اس شخص نے جس امام کی تقلید کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے جب اس کے خلاف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات دیکھے گا تو ان کی تردید کرنے لگے گا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مطعون ٹھہرائے گا۔لیکن جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث اس کے امام کے مسلک سے ہم آہنگ ہونگی تو اس وقت وہ ان کو اپنے مخالفین کی تردید میں استعمال کرے گا۔






نکاحِ ام کلثوم


آج ایک بلاگ پڑھنے کو ملا جس کو ایک کتاب نکاحِ ام کلثوم سے لکھا گیا تھا۔بلاگ لکھنا والا تو اس کتاب لکھنے والے کا مقلد معلوم ہوتا ہے کیونکہ
 جناب نے اس کتاب کے دم پر ٹائٹل کچھ اس طرح لکھا تھا کہ:
ویسے اس بلاگ لکھنے والے بیچارے کو شاید خود پتہ نہیں ہوگا کہ اس کتاب لکھنے والے نے کتنی جہالتیں لکھی ماری ہیں اس کتاب میں جس کا تھوڑا سا فریب یہاں بیان کریں گے انشاء اللہ
ہم یہاں تاریخ کو نہیں بیان کریں گئے بلکہ ان روایات کی صحت اور راویوں کی ثوثیق پر بات کریں گئے۔ پہلے روایات درج کرتے ہیں

حميد بن زياد عن ابن سماعة عن محمد بن زياد عن عبد الله بن سنان ومعاوية ابن عمار عن أبي عبد الله ع قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها أتعتد في بيتها أو حيث شاءت ؟ قال: بل حيث شاءت إن عليا ع لما توفي عمر أتى أم كلثوم فانطلق بها إلى بيته

میں نے ابو عبدلله سے پوچھا کہ وہ عورت جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو وہ ادت شوہر کے گھر میں پوری کرے گی یا جہاں وہ چاہے کر لے؟ امام (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا جہاں وہ چاہے کر لے کیونکہ حضرت عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) کے انتقال کے بعد حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) ام کلثوم (رضی اللہ تعالی عنھما) کو اپنے گھر لے آے

وثقه المجلسي : مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول ج 21 ص: 197 (الحديث الأول) : موثق.

الكافي للكليني (329 هـ) الجزء 6 صفحة 115 باب المتوفى عنها زوجها المدخول بها أين تعتد
مجلسی نے اس روایت کو موثق کہا ہے 

اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں۔




محمد بن يحيى وغيره عن أحمد بن محمد بن عيسى عن الحسين بن سعيد عن النضر بن سويد عن هشام بن سالم عن سليمان بن خالد قال: سألت أبا عبد الله ع عن امرأة توفى زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت ثم قال: إن عليا ع لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته .

صححه المجلسي : مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول ج 21 ص: 199 (الحديث الثاني) : صحيح

الخلاف للطوسي (460 هـ) الجزء 1 صفحة722

مجلسی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے

مزید ایک روایت ہماری طرف سے:

علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم وحماد عن زرارة عن أبي عبد الله (ع) في تزويج أم كلثوم فقال: إن ذلك فرج غصبناه

ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی۔ 

حسنه المجلسي : مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج 20، ص: 42 (الحديث الأول) : حسن
الكافي الكليني (329 هـ) الجزء5 صفحة 346 باب تزويج أم كلثوم

مجلسی نے اس روایت کو حسن کہا ہے


اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے۔ اس کے راوی علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں۔ 



اب آتے ہیں بلاگرز صاحب کے خود ساختہ اصولوں کی طرف۔۔۔۔اس بلاگ کے خاص پوائنٹ ہم پیش کرتے ہیں اس کے بعد دلائل پیش کیے جائیں گئے۔

حمید بن زیاد اور ابن سماعۃ ہیں ان دونوں کا تعلق واقفی مذہب سے ہے اور واقفی المذہب کے بارے میں کفر و زنادقہ کی مماثلت بیان کی گئی ہے جیسا کہ مامقانی میں امام علی رضا علیہ اسلام کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے۔

2۔ایک ہشام بن سالم ہے جو فاسد العقیدہ تھا اور اللہ کی صورت مانتا تھا۔ (رجال الکشی)

ایک روایت سلیمان بن خالد سے بھی مروی ہے جو زیدیہ فرقہ سے تھا۔ نجاشی اور شیخ طوسی نے اسے ثقہ تسلیم نہیں کیا ابن داؤد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ مقیاس الدرایہ میں زیدی، واقفی اور ناصبی کو ایک ہی منزلت پر کہا گیا ہے۔

سب سے پہلے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آیا واقفی زیدی اور ناصبی مذہب والے راوی قابل حجت ہیں۔
تو عرض کہ السید الخوئی احمد بن ہلال کے بارے میں شیخ صدوق کا قول نقل کرتا ہیں۔ 

ما رأينا ولا سمعنا بمتشيع رجع عن تشيعه إلى النصب، إلا أحمد بن هلال 

میں نے کسی کو شیعت سے ناصبیت کی طرف جاتا ہوا نا دیکھا نا سنا 

لیکن الخوئی کہتا ہے فاسد العقیدہ ہونا مضر نہیں یہ ثقہ ہے اور اس سے بہت سی روایات مروی ہیں 

فالمتحصل: أن الظاهر أن أحمد بن هلال ثقة، غاية الامر أنه كان فاسد العقيدة، وفساد العقيدة لا يضر بصحة رواياته، على ما نراه من حجية خبر الثقة مطلقا. وكيف كان، فطريق الصدوق إليه، أبوه، ومحمد بن الحسن - رضي الله عنهما -، عن سعد بن عبد الله، عن أحمد بن هلال، والطريق صحيح. طبقته في الحديث وقع بعنوان أحمد بن هلال في إسناد كثير من الروايات، تبلغ ستين موردا
(معجم الرجال 1/142)



اب فاسد العقیدہ ہونے والی جرح خود ہی مردود ہوگئی۔
اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ موصوف بلاگر کا یہ اپنا خود ساختہ اصول ہے نا کہ کسی محدث کا۔

اب آتے ہیں حمید بن زیاد کی توثیق کی طرف:

1۔حمید بن زیادہ:

محمد الجواھری نے اس کو ثقہ لکھا ہے۔

علی بن داود الحلی نے ثقہ لکھا ہے



2۔الحسن بن محمد بن سماعة:

نجاشی نے اس کو ثقہ کہا ہے

محمد الجواھری نے ثقہ کہا ہے



3۔ہشام بن سالم:

نقد الرجال میں ہے کہ یہ ثقہ ثقہ ہے یعنی دو مرتبہ ثقہ ہے
نجاشی سے بھی یہی منقول ہے۔






4۔سلیمان بن خالد:

ایوب بن نوح اور شیخ مفید نے شہادت دی ہے کہ یہ ثقہ ہے
شیخ مفید نے اس کو النص علی امامة میں نقل کرکے ثقہ کہا ہے




یہاں ایک مسئلہ جس کی وضاحت کرتا چلو کہ ابن داؤد نے اس کو ضعیف کہا ہے جس کا رد السید الخوئی نے کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ:

نمبر ایک۔۔۔سلیمان بن خالد کی ثقاھت میں اشکال نہیں ہے
 کیونکہ ایوب اور شیخ مفید نے اس کی ثقاھت کی شہادت کی ہے
اور اس کی تائید میں یہ بھی ہے کہ نجاشی نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ خالد فقیہ تھے
نجاشی کی  یہ بات سے اگر توثیق نہ ملے تو پھر بھی خالد کے حسن پر دلالت کرتا ہے
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ نجاشی اس سے یہ بات ثابت کرنا چاھتا ہے کہ خالد روایت کرنے میں مقبول ہے اور وہ اس پر اعتماد بھی کرتے تھے اور اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ ابن داود نے  بغیر وجہ اور دلیل کے خالد کو ضعفاء میں نقل کیا ہے



اور السید الخوئی نے تو اس کی ثوثیق پر بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے جس کا لنک یہ رہا۔


تمام راویوں کی توثیق  انکی اپنی کتابوں میں موجود ہے لیکن اس کو کہتے ہیں کہ مشکل میں گدھے کو اپنا باپ بنانا۔۔جب کچھ بس نہ چلا تو ایک جاہل ذاکر کی لکھی کتاب سے ہی ساری خود ساختہ جرح کرکے تمام روایوں کو مجروح کردیا۔اور جب اپنے مطلب کی باری آئی تو سب راوی ثقہ ہیں رافضیوں کے نزدیک۔
اسی کو منافقت کہتے ہیں۔۔۔۔یاللعجب